Thursday, May 30, 2019

مسواک


- مسواک -

مسکواک کی فضیلت و اہمیت میں بکثرت احادیث مروی ہیں۔

رسول الله نے فرمایا: "اگر اُمّت پر دشوار ہونے کا خوف نہ ہوتا تو میں ان پر ہر نماز کے لیے مسواک کو واجب قرار دے دیتا"۔ (بخاری، مسلم)

رسول الله نے فرمایا: مسواک کرنا مُنہ کی پاکیزگی کا ذریعہ ہے اور مؤجب رضائے الہٰی ہے۔ (بخاری)

رسول الله نے فرمایا: جبریلؑ جب بھی آئے، انہوں نے مجھے مسواک کرنے کے لیے ضرور کہا۔ (احمد)

حضور اکرم نے مزید فرمایا: خطرہ ہے کہ (جبریلؑ کی باربار تاکید اور وصیت پر) میں اپنے منہ کے اگلے حصے کو مسواک کرتے کرتے گِھس نہ ڈالوں۔ (احمد)

رسول الله جب قرأتِ قرآن یا سونے کا ارادہ فرماتے تو مسواک کرتے اور گھر میں داخل ہوتے وقت بھی مسواک کرتے۔

امی عائشہؓ فرماتی ہیں کہ رسولِ اکرم گھر میں داخل ہونے کے بعد سب سے پہلا کام جو کرتے وہ مسواک کرنا ہوتا تھا۔ (بخاری و مسلم)

امی عائشہؓ مزید فرماتی ہیں کہ آپﷺ وضو اور نماز کے وقت بھی مسواک کرتے تھے۔

انگلی سے مسواک کرنا بھی کافی ہے، اور اسی طرح ٹوتھ برش وغیرہ سے بھی۔ اصل مقصد مُنہ کی صفائی ہے، لیکن مسواک کے استعمال میں سُنت کا ثواب بھی ہے۔

امی عائشہؓ فرماتی ہیں: رسول اللهﷺ کا معمول تھا کہ دن یا رات میں جب بھی آپؐ سوتے، تو اُٹھنے کے بعد وضو کرنے سے پہلے مسواک ضرور فرماتے- (ابی داؤد)

مرض الوفات میں حضورِ اکرم صلی الله علیہ وسلم کا آخرم عمل مسواک ہے۔

رسول اللهﷺ نےارشاد فرمایا: وہ نماز جس کے لیے مسواک کی جائے، اس نماز کے مقابلے میں جو بِلا مسواک کے پڑھی جائے، ستّر گنی فضیلت رکھتی ہے۔(بیہقی)

- جن اوقات میں مسواک کرنا سُنّت یا مستحب ہے

  سونے کےبعد اٹھنے پر
وضو کرتے وقت
قرآن مجیدکی تلاوت کیلئے
حدیث شریف پڑھنے پڑھانے کیلئے
مُنہ میں بدبو ہوجانے کے وقت یا دانتوں کے رنگ میں تغیر پیدا ہونے پر۔
نماز میں کھڑے ہونے سے پہلے۔ (اگر وضو اور نماز میں زیادہ فصل ہوگیا ہو)۔
ذکر الہٰی کرنے سے پہلے
خانہ کعبہ یا حطیم میں داخل ہونے سے پہلے
اپنے گھر میں داخل ہونے کے بعد
بیوی کے ساتھ مقاربت سے پہلے
کسی بھی مجلس میں جانے سے پہلے
بھوک پیاس لگنے کے وقت
موت کے آثار پیدا ہوجانے سے پہلے
سحری کے وقت
کھانا کھانے سے قبل
سفر میں جانے سے قبل
سفر سے آنے کے بعد
سونے سے قبل

اگر ہم اپنے منہ کو سُنت کے مطابق صاف رکھیں تو بہت سی بیماریوں سے بچ سکتے ہیں۔


اُردو ورڈ Urdu Word
Twitter: @UrduW
SMS: Send ‘F UrduW’ to 40404
UrduWordUrdu.BlogSpot.com

کسی کو تکلیف نہ دیجئے


کسی کو تکلیف نہ دیجئے

کوئی فرد دُنیا میں نہ تنہا رہ سکتا ہے اور نہ ہی تنہا رہنے کا حکم دیا گیا ہے۔ خاندان، عزیز و اقارب، پڑوسی، دوست و احباب، یہ سب ہماری معاشرتی زندگی کا بنیادی حصہ ہیں۔ لیکن ہر ایک کی طبیعت، پسند، ترجیحات، معیار اور رائے دوسرے سے مختلف ہو سکتی ہے، جس سے اختلافات پیش آسکتے ہیں، اور یہ اختلافات بسا اوقات ناراضگی و انتشار کا سبب بھی بن جاتے ہیں، اس لئے شریعت نے نہ صرف مل جل کر رہنے کی تاکید کی ہے، بلکہ رہن سہن کے عمدہ آداب اور بہترین طریقے تعلیم فرمائے ہیں۔ ایک دوسرے کے حقوق کا تعین کرکے حسن معاشرت (یعنی ایک دوسرے کے ساتھ اچھے طریقے سے رہن سہن) اور حسن سلوک کی تاکید فرمائی ہے۔ اور حسن معاشرت اور حسن سلوک کو عباداتنماز، روزہ کی طرح دین کا اہم جُز قرار دیا ہے۔


’’کامل مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ ہوں‘‘۔ ﴿بخاری﴾

معلوم ہوا کہ حسن معاشرت کے بغیر ہمارا دین نامکمل ہے۔


’’اپنے شر کو لوگوں سے دور رکھو، بے شک یہ تمہاری طرف سے تمہارے اپنے ہی اوپر صدقہ ہے‘‘۔ ﴿مسلم﴾

معلوم ہوا کہ اپنے شر سے دوسروں کو بچانا، دوسروں کی سلامتی کے ساتھ ساتھ اپنی جان کی حفاظت کا ذریعہ بھی ہے۔ کہ وہ خود بھی مصائب و آفات سے بچتا ہے۔ جبکہ غلط رویے و بدسلوکی سے نہ صرف ہماری شخصیت مجروح ہوتی ہے بلکہ ہماری بداخلاقی سے بہت سے لوگ اذیت اٹھاتے ہیں۔
یوں معاشرہ میں اجتماعی طور پر بھی نفرت و فساد کی بنیاد پڑتی ہے۔


’’ہر حق والے کا حق ادا کرو‘‘۔ ﴿بخاری﴾

اگر ہم دوسروں کے حقوق ٹھیک ٹھیک ادا کرنے لگیں، اچھا سلوک اور عمدہ معاملہ کرنے لگیں تو دنیا جنت کا نمونہ بن جائے۔ بعض دفعہ ہم لوگ کسی عبادتنماز، روزہ نفلی حج و عمرہ، صدقات، قرآن کی تلاوت، اَوراد و وظائف و دعاؤں وغیرہ کا تو خوب اہتمام کرتے ہیں، اور ہمارے دلوں میں ان عبادات کی واقعی قدر و اہمیت بھی ہوتی ہے، لیکن والدین، بہن بھائی، شوہر، بیوی بچے، ساس سسر، بہو، رشتہ دار، پڑوسی، ماتحت، دوست و احباب، دیگر تعلق داروں اور حق داروں کے حقوق کی ہمارے دلوں میں ایسی اہمیت نہیں ہوتی۔ اور وہ ہماری اذیتوں کا شکار رہتے ہیں۔ حالانکہ جیسے ہم عبادات کا اہتمام کرتے ہیں اسی طرح اس بات کا اہتمام و فکر کہ: "کسی کو کوئی تکلیف نہ پہنچے اور ہر ایک کا حق بروقت اور پورا پورا ادا ہو" یہ بھی نماز، روزہ کی طرح ضروری ہے۔ غرض اچھی معاشرت کا خلاصہ یہ ہے کہ ہمارے کسی قول و فعل یا حال سے کسی کو ذرا سی بھی (ناحق) تکلیف نہ پہنچے۔


اُردو ورڈ Urdu Word
Twitter: @UrduW
SMS: Send ‘F UrduW’ to 40404
UrduWordUrdu.BlogSpot.com

صحابی رسولﷺ کی حسنِ معاشرت


رسول الله صلی علیہ والہ وسلم کے ایک صحابی حضرت طلحہ رضی الله تعالیٰ عنہ اپنے حسن معاشرت کے باعث بیوی بچوں میں نہایت محبوب تھے۔ آپؓ اپنے کنبہ میں بڑی لطف و محبت کے ساتھ زندگی بسر کرتے تھے۔ عتبہ بن ربیعہ آپؓ کے اوصاف حمیدہ کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

’’وہ گھر آتے ہیں تو ہنستے ہوئے، باہر جاتے ہیں تو مسکراتے ہوئے، کچھ مانگو تو بخل نہیں کرتے اور خاموش رہو تو مانگنے کا انتظار نہیں کرتے، اگر کوئی کام کردو تو شکرگزار ہوتے ہیں، اور خطاء ہو جائے تو معاف کردیتے ہیں‘‘ ﴿سیرالصحابہ﴾

یہاں ہمارے لئے چھ صفات کا سبق موجود جو ہمیں اپنے اندر پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔

گھر میں ہنستے ہوئے داخل ہونا۔
گھر سے مُسکراتے ہوئے رخصت ہونا۔
گھر والوں کی ضرورت کو (اپنی استطاعت کے مُطابق) پورا کرنا اور ان ضروریات کو پورا کرنے میں بخل نہ کرنا۔
گھر والوں کی ضرورت کا اُن کے سوال کئے بغیر بھی خیال رکھنا، اور اُن کے سوال کرنے سے قبل ہی اُن کی ضرورت کو پورا کردینا۔
گھر والوں کے کام پر شکریہ ادا کرنا۔
گھر والوں کی خطاؤں سے درگزر کرنا، اور اُن کی غلطیوں کو خوش مزاجی کے ساتھ معاف کردینا، اور اُس پر گرفت اور مواخذہ نہ کرنا۔

الله تعالیٰ ہمیں بھی اصحاب رسول کا سچا غلام بننے اور اُن کے نقشے قدم پر چلتے ہوئے اپنے کنبہ کے ساتھ لطف و محبت سے رہنے کی توفیق عطا فرمائیں. آمین

اُردو ورڈ Urdu Word
Twitter: @UrduW
SMS: Send ‘F UrduW’ to 40404
UrduWordUrdu.BlogSpot.com

آغازِ اصلاح


آغازِ اصلاح

آج کل ہر طرف سے اِصلاحِ معاشرہ کیلئے آواز اُٹھ رہی ہے۔ ہر ایک چاہتا ہے کہ معاشرہ سدھر جائے۔ لیکن ہم اصلاح کا آغاز دوسروں سے کرنا چاہتے ہیں، ہماری ہر تقریر و تحریر اور ہر نصیحت دوسروں کے لئے ہوتی ہے۔ قرآن نے اس پر تنبیہ کی ہے۔
أَتَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَتَنسَوْنَ أَنفُسَكُمْ ﴿2:44
"کیا تم حکم دیتے ہو لوگوں کو نیکی کا اور بھول جاتے ہو اپنے آپ کو؟"
اگر ہم اِصلاح کا آغاز اپنی ذات اور اپنے گھر سے شروع کردیں اور اپنے حقوق کے مطالبہ سے پہلے دوسروں کے حقوق کو ادا کرنے لگ جائیں تو بہت جلد معاشرہ اصلاح کی طرف آسکتا ہے۔ انبیاء علیہم السلام اصلاح کا آغاز اپنے گھر، اپنے اہل و عیال اور اپنے خاندان سے فرمایا کرتے تھے۔
حضرت نوح علیہ السلام اپنے بیٹے کو آخر دم تک سمجھاتے رہے:
يَا بُنَيَّ ارْكَب مَّعَنَا وَلَا تَكُن مَّعَ الْكَافِرِينَ ﴿11:42
ترجمہ: "اے میرے پیارے بیٹے! (ایمان لا کر تو بھی) ہمارے ساتھ (کشتی میں) سوار ہوجا، اور کافروں کے ساتھ نہ رہ"۔ ﴿ھود:42
حضرت لوط علیہ السلام بھی اپنی بیوی کو سمجھاتے رہے لیکن وہ ایمان نہ لائی "(عذاب کے فرشتوں نے حضرت لوطؑ کو بتایا کہ) بے شک اس (آپ کی بیوی) پر بھی وہی عذاب نازل ہوگا جو اُن (قوم کے باقی نافرمانوں) پر ہوگا" ﴿ھود:81

حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے کافر باپ کو طویل عرصہ تک دعوت دیتے رہے، اور فرمایا: "اے ابا جان! (اگر آپ ایمان نہ لائے تو) مجھے ڈر ہے آپ پر رحمٰن کی جانب سے عذاب کا"۔ ﴿مریم:45

"وصیت کی ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے بیٹوں کو اور یعقوب (علیہ السلام) نے (بھی اپنے بیٹوں کو) کہ: اے بیٹو! بے شک الله نے منتخب کیا ہے تمہارے لئے دین (اسلام) کو، لہٰذا تم مسلمان کو کر ہی مرنا"۔ ﴿بقره:132

یعنی تماری پوری زندگی فرماں برداری ہی میں گزرے اور فرماں برداری ہی کی حالت میں تمہیں موت آئے۔

نبی کریمﷺ کو بھی یہی حکم ہوا:
وَأَنذِرْ عَشِيرَتَكَ الْأَقْرَبِينَ ﴿26:214
"اپنے قریب ترین خاندان کے لوگوں کو (عذاب) سے ڈرائیے"۔﴿شعراء:214
چنانچہ آپؐ نے اپنے خاندان کو جمع فرمایا اور اُن کے سامنے دعوت حق کو رکھا۔

انبیاء علیہم السلام کے طرزوفکر سے یہ اُصولی بات سمجھ میں آتی ہے کہ وہ پہلے نمبر پر اپنے اہل خانہ کی صلاح و فلاح کی بھرپور فکروکوشش فرماتے۔ ہمیں بھی یہی حکم دیا گیا ہے، چنانچہ ارشاد ہے: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا ﴿66:6
ترجمہ: ”اے ایمان والو! بچاؤ اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو جہنم کی آگ سے"۔ ﴿التحریم:6

ہمیں بھی اپنی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے اصلاح کا آغاز اپنی ذات اور اپنے گھر سے کرنا چاہیئے۔


اُردو ورڈ Urdu Word
Twitter: @UrduW
SMS: Send ‘F UrduW’ to 40404
UrduWordUrdu.BlogSpot.com

شراب کے حرام ہونے پر سات دلائل


شراب کے حرام ہونے پر سات دلائل

الله رب العزت کا ارشاد ہے:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ۝ ﴿5:90 إِنَّمَا يُرِيدُ الشَّيْطَانُ أَن يُوقِعَ بَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاءَ فِي الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ وَيَصُدَّكُمْ عَن ذِكْرِ اللَّهِ وَعَنِ الصَّلَاةِ ۖ فَهَلْ أَنتُم مُّنتَهُونَ ۝ ﴿5:91

ترجمہ: ’’اے ایمان والو! شراب، جوا، بتوں کے تھان (مراد وہ قربان گاہ جو بتوں کے سامنے بنادی جاتی تھی اور لوگ بتوں کے نام پر وہاں جانور وغیرہ قربان کیا کرتے تھے) اور جوے کے تیر، یہ سب ناپاک شیطانی کام ہیں۔ لہٰذا ان سے بچو، تاکہ تمہیں فلاح حاصل ہو۔
شیطان تو یہی چاہتا ہے کہ شراب اور جوے کے ذریعے تمہارے درمیان دشمنی اور بُغض کے بیج ڈال دے اور تمہیں الله کی یاد اور نماز سے روک دے، اب بتاؤ کہ کیا تم (ان چیزوں سے) باز آجاؤ گے؟‘‘ ﴿سورة المائدة، آیت: 90-91

مذکورہ ان دو آیتوں میں شراب کے حرام ہونے پر سات دلائل موجود ہیں:

پہلی دلیل: رِجْس… شراب کو ناپاک اور نجس فرمایا ہے۔ اور جو چیز نجس ہو وہ حرام ہے، معلوم ہوا شراب حرام ہے۔
دوسری دلیل: مِنْ عَمَلِ الشَّیْطٰنِ… شراب شیطانی کام ہے۔ اور جو شیطانی کام ہے وہ حرام ہے، معلوم ہوا شراب حرام ہے۔
تیسری دلیل: فَاجْتَنِبُوْہُ… تم شراب سے بچو اور الله تعالٰی جس چیز سے بچنے کا حکم فرمائیں وہ حرام ہے، معلوم ہوا شراب حرام ہے۔
چوتھی دلیل: لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ… شراب سے بچو تاکہ تمہیں فلاح حاصل ہو۔ معلوم ہوا کہ شراب حرام ہے کیونکہ فلاح تب حاصل ہوگی جب شراب سے بچے گا اور اگر نہیں بچے گا تو فلاح بھی حاصل نہیں ہوگی۔
پانچویں دلیل: إِنَّمَا يُرِيدُ الشَّيْطَانُ أَن يُوقِعَ بَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاءَ فِي الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ… شیطان تو یہی چاہتا ہے کہ شراب اور جوے کے ذریعے تمہارے درمیان دشمنی اور بُغض کے بیج ڈال دے۔ پس جو چیز مسلمانوں کے درمیان دشمنی اور بغض کا سبب بنے وہ حرام ہے، معلوم ہوا شراب حرام ہے۔
چھٹی دلیل: وَيَصُدَّكُمْ عَن ذِكْرِ اللهِ وَعَنِ الصَّلَاةِ ۖ… شیطان تو یہی چاہتا ہے کہ شراب وغیرہ کے ذریعے تمہیں الله تعالٰی کی یاد اور نماز سے روک دے۔ پس شیطان جس چیز کے ذریعے الله کی یاد اور نماز سے روکتا ہے وہ حرام ہے، معلوم ہوا کہ شراب حرام ہے۔
ساتویں دلیل: فَهَلْ أَنتُم مُّنتَهُونَ… تم ان چیزوں (شراب وغیرہ) سے باز آجاؤ، پس الله تعالٰی اپنے بندوں کو جن چیزوں سے باز رہنے کا حکم فرمائیں وہ حرام ہیں، معلوم ہوا کہ شراب حرام ہے۔

اُردو ورڈ Urdu Word
Twitter & Telegram: @UrduW
SMS: Send ‘F UrduW’ to 40404
UrduWordUrdu.BlogSpot.com

حالات کی تین صورتیں


کہتے ہیں انسان پر نازل ہونے والے حالات تین چیزوں کے نتائج کی صورتوں میں تقسیم ہوتے ہیں:
اعمال،گمان،تقدیر۔

اعمال: انسان پر نازل ہونے والے پریشان کن حالات کیوجہ اکثر گناہوں کا ارتکاب، اور ترک فرائض و واجبات ہوتے ہیں۔ اور بعض اوقات محض آزمائش اور بلندی درجات بھی وجہ ہوتی ہے۔

گمان: گمان میں سب سے اونچا درجہ اُن خیالات کا ہے جو ہر وقت انسان کے ذہن کو گھیرے رہتے ہیںجیسے کہ کسی چیز کی شدید چاہت و تمنا، یا کسی بات کا خوف۔ کہتے ہیں گمان کی ان صورتوں کے حقیقت بن جانے کے امکانات سب سے زیادہ روشن ہوتے ہیںلہٰذا گمان ہمیشہ مثبت رکھیں۔

تقدیر: تقدیر میں لکھا ٹل نہیں سکتا، سوائے دُعا کے۔ اور تقدیر صرف ایمان رکھنے کی شے ہے، زیادہ غوروفکر کرنے کی نہیں۔ ماضی میں جو ہوا اسے خُدا کی طرف سے سمجھ کر مطمئن ہوجانا ہی تقدیر پر ایمان ہے، اور اتنا کافی ہے۔ اس سے زیادہ سوچنا بدگمانی اور شیطان کو دعوت دینا ہے۔


اُردو ورڈ Urdu Word
Twitter & Telegram: @UrduW
SMS: Send ‘F UrduW’ to 40404
UrduWordUrdu.BlogSpot.com

غصہ آنا برا نہیں، اس پر غلط عمل برا ہے



◼︎ غصہ آنا برا نہیں، اس پر غلط عمل برا ہے ◼︎

غصہ آنا خود گناہ نہیں ہے، کیونکہ غیراختیاری ہے۔ البتہ غصہ کے بعد جس پر غصہ آیا ہے اس کو مارنا پیٹنا، برا بھلا کہنا یہ گناہ ہے۔

بزرگانِ دین نے اس کا بھی علاج تجویز فرمادیا، کہ:
جس پر غصہ آیا ہے اس کو کچھ ہدیہ دے دیا جائے۔
ایک علاج یہ ہے کہ وہاں سے اُٹھ جایا جائے۔
ایک علاج یہ ہے کہ ہانچ دس منٹ سوچے کہ مجھے کیا کرنا چاہیے؟ سوچ کر شرعی حدود اور عقل کے مطابق جو مناسب ہو وہ کرلے۔

غصہ آنے کا سبب تکبر ہوتا ہے کہ اپنے آپ کو بڑا سمجھتا ہے تو کوئی بات برداشت نہیں کرسکتا۔ پھر اگر مار پیٹ لے تو تھوڑی دیر کے بعد شرمندگی ہوتی ہے گویا غصہ کی اولاد "شرمندگی" ہے اور باپ "تکبر" ہے، یہ غصہ کا نسب ہے، دونوں چیزیں بری ہیں اس لئے غصہ چھوڑ دینا چاہیے۔ مطلب یہ ہے کہ غصہ پر غلط عمل نہ کرے، بزرگانِ دین نے اس کی تراکیب بتا دی ہیں۔ غصہ کا علاج کرنے سے ہوگا، سننے سے نہیں ہوگا۔ اس لئے غصہ کی وجہ سے آدمی کبھی ظلم نہ کرے۔ اوّل تکبر کا علاج کرے، تکبر دور ہوجائے گا تو غصہ نہیں آئے گا، اس لئے کہ اپنے سے بڑے (یا بہتر) پر غصہ نہیں آتا، کیونکہ سمجھتا ہے کہ "وہ بڑا ہے میں چھوٹا ہوں"، غصہ ہمیشہ اپنے سے چھوٹے پر آتا ہے کہ جس کو چھوٹا (یا کمتر، کم عقل) سمجھتا ہے اس پر غصہ آتا ہے۔ تو علاج یہ ہے کہ اس کو اپنے سے چھوٹا (کمتر، کم عقل) نہ سمجھے، بلکہ تکبر کا علاج کرے، اس سے غصہ ختم ہو جائے گا۔ کفر کے بعد دین میں تکبر ہی سب سے بڑی بیماری سمجھی جاتی ہے۔ تکبر خود بھی حرام ہے اور اس سے جو غلط کام پیدا ہوتے ہیں وہ بھی حرام ہیں اس لئے تکبر سے بچنا ضروری ہے۔

الله تعالٰی کا ارشاد ہے:
أَلَيْسَ فِي جَهَنَّمَ مَثْوًى لِّلْمُتَكَبِّرِينَ ﴿39:60
ترجمہ: "کیا جہنم میں متکبرین کا ٹھکانہ نہیں؟"

نیز فرمایا:
إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ كُلَّ مُخْتَالٍ فَخُورٍ ﴿31:18
ترجمہ: "کسی تکبر کرنے والے شیخی خورے کو الله پسند نہیں فرماتا"۔

مُخْتَالٍ کہتے ہیں "اکڑ کر چلنے والا" یہ ہاتھ پاؤں کا تکبر ہے اور فَخُورٍ  کہتے ہیں "زبان سے تکبر کرنے والا"۔

تکبر کے تین درجے ہیں:
دل میں اپنے آپ کو بڑا، بہتر، اعلیٰ سمجھنا۔
دوسروں کو حقیر سمجھنا۔
زبان سے فخر کے کلمات کہنا کہ "میں ایسا، میں ویسا"۔
ہاتھ اور پیر سے بھی تکبر ہوتا ہے کہ اکڑ کر چلتا ہے۔

الله تعالٰی ہمیں ان گناہوں سے بچنے کی توفیق عطا فرمائیںآمین


اُردو ورڈ Urdu Word
Twitter & Telegram: @UrduW
SMS: Send ‘F UrduW’ to 40404
UrduWordUrdu@.logSpot.com

احکام کی حکمتیں تلاش کرنا


▫︎ احکام کی حکمتیں تلاش کرنا ▫︎

احکام کی علتیں (وجوہات) و حکمتیں تلاش کرنا اچھا نہیں ہے۔ اس سے توجہ علتوں کی طرف ہو جاتی ہے۔ یعنی اس علت (وجہ) کے لئے اور اس حکمت کے لئے یہ کام کرے گا، تو اس سے اس حکم کی عظمت کم ہو جاتی ہے۔ کام تو اس لئے ہونا چاہیے تھا کہ الله تعالٰی کا حکم ہے۔ ہمیں کچھ نہیں پتہ حکمت ہے یا نہیں؛ کونسی ہے کونسی نہیں۔

حکمتوں کے پیچھے پڑنا یہ الله تعالٰی کی عظمت کے خلاف ہے۔ صرف الله تعالٰی کی عظمت کو سوچتے ہوئے، ان کے حکم پر عمل کرنا چاہیے کہ بس الله کا حکم ہے۔ اس سے الله تعالٰی کے حکم کی عظمت دل میں زیادہ رہتی ہے۔ جب حکمتیں تلاش کریں کہ یہ یہ فائدہ ہے اس حکم پر عمل کرنے میں، تو ذہن حکمتوں کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے۔ الله تعالٰی کے حکم ہونے کی طرف توجہ کم ہو جاتی ہے۔ اس لئے حکمتوں کو تلاش کرنا مناسب نہیں۔

الله تعالٰی سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق عطاء فرمائیںآمین


اُردو ورڈ Urdu Word
Twitter & Telegram: @UrduW
SMS: Send ‘F UrduW’ to 40404
UrduWordUrdu.BlogSpot.com

تزکیہ نفس


تزکیہ نفس

شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے مگر اس سے بڑھ کر بھی ایک دشمن ہے جسے نفس کہا جاتا ہے۔ نفس ہمارے اندر کی وہ آواز ہے جو ہمیں برائیوں کی طرف گامزن کیے رکھتی ہے اور نیکیوں سے دور ہونے کے راستے ہمیں دکھاتی رہتی ہے۔ یہ نفس ہی ہے جو ہمیں خواہشات کی خاطر خدا کو بھول جانے کی راہ پر چلا دیتا ہے، اور طرح طرح کے حیلے بہانے سکھاتا ہے کہ ہم الله کی عبادت نہ کر سکیں۔

ہم میں سے اکثر کہتے ہیں کہ رمضان میں شیطان نہیں ہوتا پھر برائیاں کیسے ہوگئیں؟ تو دراصل ضروری نہیں کہ ہر گناہ جو ہم کر رہے ہیں اس میں شیطان کا ہی ہاتھ ہو، اس میں ہمارا نفس پورا پورا شریک ہے۔ ہم اپنے آپ کو خود ہی تباہ کر رہے ہیں اور برا بھلا شیطان کو کہتے رہتے ہیں۔

بلاشبہ شیطان کو قرآن نے انسان کا کھلا دشمن قرار دیا ہے مگر وہاں یہ بھی کہا:
أَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلَٰهَهُ هَوَاهُ أَفَأَنتَ تَكُونُ عَلَيْهِ وَكِيلً ﴿25:43
أَمْ تَحْسَبُ أَنَّ أَكْثَرَهُمْ يَسْمَعُونَ أَوْ يَعْقِلُونَ ۚ إِنْ هُمْ إِلَّا كَالْأَنْعَامِ ۖ بَلْ هُمْ أَضَلُّ سَبِيلً﴿25:44

"کیا تم نے اس شخص کو دیکھا جس نے اپنا خدا اپنی خواہشاتِ نفس کو بنا رکھا ہے؟ پھر کیا تم ایسے شخص کو راہِ راست پر لانے کا ذمہ لے سکتے ہو؟ کیا تم سمجھتے ہو ان میں سے اکثر لوگ سنتے اور سمجھتے ہیں؟ یہ تو جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی گئے گزرے" ﴿سورة الفرقان، آیت نمبر: 43، 44

الله نے خواہشاتِ نفسانی کے تابع انسان کو جانور سے بھی بدتر قرار دیا ہے مگر ہم پھر بھی نہیں سمجھتے۔ ہم ہی وہ انسان ہیں جو خواہش کو خدا سے آگے لے گئے اور جانوروں سے بدتر کہلائے گئے۔ ہم ہی تو ہیں جو اپنی خواہشات کے لیے الله سے دور ہو جاتے ہیں۔

نفس ہمارا دشمن ہے اور یہ دشمن ہمیں برائی کی راہ پر چلاتا ہے۔ اسی لیے اس جہاد کو افضل ترین قرار دیا گیا ہے۔ یہ وہ جنگ ہے جس میں اسلحے کی ضرورت نہیں بلکہ ہم اپنی خواہشات اور اپنی ان عادات کو چھوڑ کر زندگی گزاریں جن کو چھوڑنا مشکل ہے، انہیں الله کیلئے قربان کریں یہی حقیقی جہاد ہے۔

الله خوش ہوتا ہے اس شخص سے جو الله کیلئے اپنی برائی کی عادات کو چھوڑ دے۔ نفس کے گھوڑے پر جتنا قابو رکھا جائے گا دنیا اتنی قدموں تلے آجائے گی اور الله اس سے کہیں زیادہ خوش ہوگا۔ جیسا کہ فرمایا:
قَدْ أَفْلَحَ مَن زَكَّاهَا ﴿91:9
"یقیناً فلاح پاگیا وہ شخص جس نے نفس کا تزکیہ کیا" ﴿سورة الشمس، آیت نمبر: 9

"جس نے اپنے نفس کو پاک کیا وہ بامراد ہوا"۔ ﴿مسند احمد﴾

ایک اور جگہ ہے:
"جس نے پاکیزگی کی اور اپنے رب کا نام یاد کیا پھر نماز پڑھی اس نے کامیانی پالی اور جس نے اپنے ضمیر کا ستیاناس کیا اور ہدایت سے ہٹا کر اسے برباد کیا اور نافرمانیوں میں پڑگیا، الله کی اطاعت کو چھوڑ بیٹھا یہ ناکام اور نامراد ہوا"۔

جس نفس کو الله نے پاک کیا اس نے چھٹکارا پا لیا۔ ہمیں قرآن و حدیث سے ایسی دعائیں ملتی ہیں جو ہمیں نفس پر قابو پانے میں مدد دیتی ہیں؛ ذیل میں ایسی ہی چند دُعاؤں کے مفہوم ذکر کئے جاتے ہیں:

اے الله! میرے دل میں ہدایت ڈال اور مجھے میرے نفس کی برائی سے بچا۔ آمین

یااللہ! میں عاجز اور بے چارہ ہوجانے سے، سستی سے اور ہار جانے سے، بڑھاپے سے اور نامرادی سے اور بخیلی سے اور عذابِ قبر سے پناہ چاہتا ہوں۔ یااللہ! میرے دل کو اس کا تقویٰ عطا فرما اور اسے پاک کردے، توہی اسے بہتر پاک کرنے والا ہے، تو ہی اس کا والی اور مولیٰ ہے۔ آمین

اے الله! مجھے ایسے دل سے بچا جس میں تیرا ڈر نہ ہو اور ایسے نفس سے بچا جو آسودہ نہ ہو، اور ایسے علم سے بچا جو نفع نہ دے اور ایسی دعا سے بچا جو قبول نہ کی جاتی ہو۔ آمین

ہمیں طریقہ سکھایا گیا ہے کہ ہم الله سے کیا مانگیں۔ الله تعالٰی ہمارے نفس کو برائی سے بچائے، ہمیں تقویٰ نصیب ہو، ہم اپنے نفس پر قابو کرکے الله کو راضی کرلیں اور الله ہم سے خوش ہو جائےآمین



اُردو ورڈ Urdu Word
Twitter & Telegram: @UrduW
SMS: Send ‘F UrduW’ to 40404
UrduWordUrdu.BlogSpot.com