Sunday, October 27, 2019

دنیا ایک درسگاہ


دُنیا کی مثال ایک ایسی درسگاہ کی سی ہے جو ایک ہی کمرہ پر مشتمل ہو، جس میں مختلف جماعتوں کے طلباء کو ایک ساتھ جمع کردیا گیا ہو: پہلی جماعت کے طلباء کالج اور یونیورسٹی کے طلباء کے ساتھ ہیں، ذہنی طور پر کمزور طلباء خداداد صلاحتیوں سے مالامال طلباء کے ساتھ ہیں۔

یہاں کا نصاب ہر زبان میں پڑھایا جاتا ہے اور ہر قسم کے مضامین کا احاطہ کیا جاتا ہے۔ ہر قوم اور ہر نسل کے طلباء یہاں شرکت کرتے ہیں ― تمام انسان شرکت کرتے ہیں۔ سب کی منزل ایک ہے، روحانی تدریج۔

اس درسگاہ کے اسباق تھوڑے مشکل ہیں، اسکی وجہ یہ ہے کہ یہاں ہمیں جسم دیا گیا ہے، لہٰذا ہمارا سامنا بیماریوں سے ہوتا ہے، موت سے ہوتا ہے، نقصان، درد، علیحدگی، اور بےشمار مختلف قسم کی تکالیف سے گزرنا پڑتا ہے۔

تاہم اس درسگاہ، یعنی دنیا میں ہمیں بےشمار فضائل بھی میسر ہیں، جیسے ناقابلِ یقین خوبصورتی، محبت، غیرمشروط محبت، روحانی ساتھی، تمام حواس کیلئے راحتیں، مہربان اور ہمدرد لوگ، اور روحانی ترقی و بلندی کے تیز تر مواقع۔

آخر کار، زندگی کے کئی نشیب و فراز سے گزرنے کے بعد، ہم ان تمام اسباق سے کچھ نہ کچھ حاصل کر ہی لیتے ہیں۔ اور پھر بالآخر ایک وقت آتا ہے جب ہماری تعلیم کا یہ سلسلہ مکمل ہوجاتا ہے، اور پھر ہمیں اس کے لئے دوبارہ جنم لینا نہیں پڑتا۔

اُردو ورڈ ― Urdu Word
Twitter: @UrduW
SMS: Send ‘F UrduW’ to 40404
http://www.UrduWordUrdu.BlogSpot.com

Friday, October 25, 2019

تصور کریں کہ ایک خوبصورت پہاڑ ہے، جس کی چوٹی برف سے ڈھکی ہوئی ہے…


تصور کریں کہ ایک خوبصورت پہاڑ ہے، جس کی چوٹی برف سے ڈھکی ہوئی ہے۔ جب آپ اسے دیکھیں تو آپ محسوس کریں کہ اس کا اندرونی حصہ مستقل طور پر پرسکون اور درجہ حرارت اطمینان بخش ہے؛ کہ باہر جیسا بھی موسم ہو، اس کیوجہ سے اندر کے ماحول میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی۔

اب یہ تصور کریں کہ موسم بدلنا شروع ہوتا ہے۔ موسمِ گرما اور برسات کی آمد ہوتی ہے تو گرج چمک کے ساتھ طوفانی بارشیں ہوتی ہیں، اور جنگلوں میں آگ بھڑک اُٹھتی ہے؛ تاہم پہاڑ کے باطنی حصے میں ٹھہراؤ اور سکون رہتا ہے۔

گرمیاں خزاں میں تبدیل ہو جاتی ہیں، اور تیز ہواؤں کے جھکڑ چلنا شروع ہو جاتے ہیں، درختوں کے پتے گرنے لگتے ہیں؛ پھر سردیاں آجاتی ہیں اور ساتھ میں برف اور جما دینے والی ٹھنڈ؛ اور پھر یہ بھی بہار میں بدل جاتی ہیں، برف پگھلنے لگتی ہے اور برفانی تودے گرنے لگتے ہیں۔

ان کے باوجود پہاڑ کا باطنی حصہ، پہاڑ کی گہری غار میں موجود یہ خوبصورت حصہ، موسموں کی ان تبدیلیوں کیوجہ سے مُتاثر ہونے سے محفوظ رہتا ہے۔

ہم بھی اس پہاڑ کی طرح ہیں۔ ہمیں ضرورت نہیں کہ ہم باہر کے واقعات کو اپنی خوشی، ہم آہنگی اور اتفاق لوٹنے دیں؛ چاہے وہ واقعات کتنے ہی مضبوط طوفانی غصہ کی صورت میں ہوں یا ہوائیں کتنی ہی تیز کیوں نہ ہوں۔

ہم سب کے باطن میں بھی ایک حصہ ہے جو پُرسکون اور مطمئین ہوتا ہے۔ یہ اس وقت بھی موجود ہوتا ہے جب ہمیں اس کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہم اپنے باطن کے اس حصہ میں جاکر خود کو شفایاب کر سکتے ہیں۔

پہاڑ کا باطنی حصہ کامل ہوتا ہے ― اور ہمارا بھی۔

اب دوبارہ تصور کریں کہ سیاح اس پہاڑ پر آتے ہیں۔ کوئی ریل گاڑی میں آتا ہے، کوئی ہوائی جہاز میں، کوئی بذریعہ گاڑی، کوئی کشتی، اور کوئی کسی اور ذریعہ سے۔ تو ان سب کی اپنی اپنی رائے ہوتی ہے۔ کوئی کہتا ہے کہ: یہ پہاڑ اتنا خوبصورت نہیں جتنا میں نے کہیں اور دیکھا تھا۔ یہ بہت چھوٹا ہے، یا بہت زیادہ بڑا ہے، یا بہت سمٹا ہوا ہے، یا بہت زیادہ پھیلا ہوا ہے۔ لیکن پہاڑ ان کی کوئی پرواہ نہیں کرتا، کیونکہ وہ جانتا ہے کہ یہی تو اسکا اصل اور مثالی جوہر ہے۔

ہم، ایک مرتبہ پھر، پہاڑ کی مانند ہیں۔ لوگ ہمارے بارے میں چاہے کچھ بھی کہیں، چاہے جو تنقید کریں یا جیسا چاہیں ہمارے بارے میں سوچیں، ہمیں خدا نے کامل بنایا ہے اور اپنی قوتوں سے نوازہ ہے۔ ہم پر دوسروں کی رائے اثرانداز نہیں ہونی چاہیئے، حتیٰ کہ ان کی بھی نہیں جو ہمارے قریبی ہیں، جیسے ہمارے خاندان کے افراد، یا وہ جنہیں پیشہ کے اعتبار سے ہم جوابدہ ہیں، یا وہ جن سے ہمارا محبت کا رشتہ ہے۔

اس تصور کے تحت ہم پہاڑ کی طرح مضبوط ہیں اور زمین پر جمے ہوئے ہیں۔ ہم دل کی گہرائی میں یہ جانتے ہیں کہ ہمارا اصل وجود ایک مثالی اور کامل روح ہے۔ دوسروں کے الفاظ ہمارا باطنی سکون اور خوشی نہیں چھین سکتے جب تک کہ ہم خود انہیں اختیار نہ دیں۔

ہمیں اپنی عظمت اور شرافت کو یاد کرتے رہنا چاہیئے؛ اس خوبصورت پہاڑ کی طرح، ہم بھی شاندار ہیں۔ ہم ہمیشہ ہی سے ہیں۔


اُردو ورڈ  Urdu Word

Twitter: @UrduW
SMS: Send ‘F UrduW’ to 40404
http://www.UrduWordUrdu.BlogSpot.com


Tuesday, July 23, 2019

اپنے خیالات کا انتخاب کرنا سیکھئے


اپنے خیالات کا انتخاب کرنا سیکھئے، بالکل ویسے ہی جیسے آپ روزانہ پہننے کیلئے صاف ستھرے کپڑوں کا انتخاب کرتے ہیں۔ یہ وہ طاقت ہے جسے آپ کاشت کر سکتے ہیں۔ اگر آپ شدت کے ساتھ اپنی زندگی میں چیزوں پر قابو پانا چاہتے ہیں، تو اپنے دماغ پر کام کریں۔ درحقیقت بس یہی ایک چیز ہے جس پر آپ کو قابو پانے کی کوشش کرنی چاہئے۔ اس کے علاوہ ہر چیز (پر قابو پانے) کی فکر چھوڑ دیں۔ کیونکہ اگر آپ نے اپنے سوچنے کے انداز پر کمال حاصل نہیں کیا، تو آپ ہمیشہ مشکلات کا شکار رہیں گے۔


اُردو ورڈ Urdu Word
Twitter: @UrduW
SMS: Send ‘F UrduW’ to 40404
http://www.UrduWordUrdu.BlogSpot.com

Monday, July 22, 2019

شیر اور شارک دونوں پیشہ ور شکاری ہیں، لیکن:


شیر اور شارک دونوں پیشہ ور شکاری ہیں، لیکن شیر سمندر میں شکار نہیں کرسکتا اور شارک خشکی پر شکار نہیں کر سکتی۔ شیر کو سمندر میں شکار نہ کر پانے کیوجہ سے ناکارہ نہیں کہا جاسکتا اور شارک کو جنگل میں شکار نہ کر پانے کیوجہ سے ناکارہ نہیں کہا جاسکتا۔ دونوں کی اپنی اپنی حدود ہیں جہاں وہ بہترین ہیں۔

اگر گلاب کی خوشبو ٹماٹر سے اچھی ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ اسے کھانا تیار کرنے میں بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔ ایک کا موازنہ دوسرے کے ساتھ نہ کریں۔

آپ کی اپنی ایک طاقت ہے، اسے تلاش کریں اور اس کے مطابق خود کو تیار کریں۔ کہتے ہیں ہر وہ جاندار جو آج دنیا میں موجود ہے نوحؑ کی کشتی میں موجود تھا، جس میں گھونگا بھی شامل ہے۔ اگر خُدا ایک گھونگے کے جوڑا کا نوحؑ کی کشتی تک پہنچنے کا انتظار کر سکتا ہے تو وہ خُدا آپ پر بھی اپنے فضل کا دروازہ اُس وقت بند نہیں کرے گا جب تک کہ آپ زندگی میں اپنے متوقع مقام تک نہیں پہنچ جاتے۔ کبھی خود کو حقارت کی نظر سے نہ دیکھیں، بلکہ ہمیشہ خود سے اچھی اُمیدیں وابستہ رکھیں۔

یاد رکھیں! ٹوٹا ہوا رنگین قلم بھی رنگ بھرنے کے قابل ہوتا ہے۔

اپنے اختتام تک پہنچنے سے پہلے خود کو بہتر کاموں کے استعمال میں لے آئیں۔ اور وقت کا بدترین استعمال اسے خود کا دوسروں کے ساتھ موازنہ کرنے میں ضائع کرنا ہے۔ مویشی گھاس کھانے سے موٹے تازے ہو جاتے ہیں، جبکہ یہی گھاس اگر درندے کھانے لگ جائیں تو وہ اسکی وجہ سے مر سکتے ہیں۔ کبھی بھی اپنا موازنہ دوسروں کے ساتھ نہ کریں۔ اپنی دوڑ اپنی رفتار سے مکمل کریں۔ جو طریقہ کسی اور کی کامیابی کی وجہ بنا، ضروری نہیں کہ آپ کیلئے بھی سازگر ہو۔ خُدا کی عطاء کردہ تحفوں (نعمتوں اور صلاحیتوں) پر نظر رکھیں، اور اُن تحفوں سے حسد کرنے سے باز رہیں جو خُدا نے دوسروں کو دیئے ہیں۔

کوشش کرتے رہیں، آپ نہیں جانتے کہ آپ اپنے مقصد کے کتنا قریب پہنچ چکے ہیں۔


اُردو ورڈ Urdu Word
Twitter: @UrduW
SMS: Send ‘F UrduW’ to 40404
http://www.UrduWordUrdu.BlogSpot.com

Friday, June 7, 2019

قیامت کے دن گنہگار مسلمانوں کا انجام


قیامت کے دن گنہگار مسلمانوں کا انجام

#ماخوذ: آپ کے مسائل کا حل ضرب مؤمن
شمارہ: 14تا20 صفر 1437ھ

قانون تو یہی ہے کہ ہر مجرم کو اس کے جرم کی سزا ملے گی، خواہ اس جرم کا تعلق حقوق الله سے ہو یا حقوق العباد سے۔

فَمَن يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَرَهُ (7) وَمَن يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَرَهُ (8) ﴿الزلزلة﴾
ترجمہ: "چنانچہ جس نے ذرہ برابر کوئی اچھائی کی ہوگی وہ اسے دیکھے گا، اور جس نے ذرہ برابر کوئی برائی کی ہوگی وہ اسے دیکھے گا۔ ﴿الزلزلة:7-8

مگر کسی کو الله تعالیٰ اس قانون سے مستثنیٰ قرار دے دیں اور سزا کے بغیر ہی معاف فرمادیں تو الله سے کوئی پوچھنے والا نہیں۔

لَا يُسْأَلُ عَمَّا يَفْعَلُ وَهُمْ يُسْأَلُونَ ﴿21:23
وہ جو کچھ کرتاہے اس کا کسی کو جوابدہ نہیں ہے اور ان سب کو جواب دہی کرنی ہوگی﴿أنبیاء:23

نیز ارشاد فرمایا:
إِنَّ اللَّهَ لَا يَغْفِرُ أَن يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَٰلِكَ لِمَن يَشَاءُ ﴿4:48
ترجمہ: یقیناً الله تعالیٰ اپنے ساتھ شریک کئے جانے کو نہیں بخشتا اور اس کے سوا جسے چاہے بخش دیتا ہے۔ ﴿النساء:48

حقوق الله کا معاملہ تو الله تعالیٰ کے سپرد ہے۔ وہ چاہیں تو سزا دیں یا مواخذہ کے بعد محض اپنے فضل و کرم سے بغیر سزا کے معاف کر دیں۔  مگر کسی انسان کو یقینی طور پر یہ بات معلوم نہیں ہوسکتی کہ آخرت میں وہ اپنے گناہوں کی سزا سے بچ کر اس معافی کا مستحق بنے گا۔ لہٰذا الله تعالیٰ کی نافرمانی اور سرکشی کا ارتکاب صرف اس لیے کرنا کہ الله تعالیٰ بخش دیں گے، بڑی نادانی اور الله تعالیٰ کے غضب کو دعوت دینے والی بات ہے۔

جبکہ حقوق العباد کا معاملہ زیادہ سنگین ہے کہ یہ ادائیگی یا صاحب حق کی جانب سے معافی کے بغیر ساقط نہیں ہوتے۔

روایات میں آتا ہے:

جو شخص اپنے کسی مسلمان بھائی کا کوئی حق رکھتا ہو، اور وہ حق خواہ کسی کی عزت نفس مجروح کرنے کا ہو یا کسی اور چیز سے متعلق ہو، تو اس کو چاہیے کہ اس حق کو دنیا ہی میں معاف کرالے، اس سے پہلے کہ وہ دن آئے جس میں وہ نہ تو درہم رکھتا ہوگا نہ دینار، اگر ظالم کے اعمال نامہ میں کچھ نیکیاں ہوں گی تو ان میں سےاس کے ظلم کے برابر یا واجب حق کی بقدر نیکیاں لے لی جائیں گی اور حقدار کو دیدی جائیں گی اور اگر وہ کچھ نیکیاں نہیں رکھتا ہوگا تو اس صورت میں حقدار کے گناہوں میں سے اس کے حق کی بقدر گناہ لے کر ظالم پر لاد دیئے جائیں گے۔

البتہ یہ ممکن ہے کہ قیامت کے دن الله تعالیٰ کسی سے کسی عمل پر خوش ہوکر اپنے خزانہ سے اس پر لازم حقوق العباد کی ادائیگی کر کے محض اپنے فضل و کرم سے اس کی سزا معاف فرمادیں۔

مگر یہ کیسے معلوم ہوسکتا ہے کہ اس پر الله کی ایسی نوازش ہوگی؟
اس لیے حقوق العباد کی ادائیگی کا بہت اہتمام کرنا چاہیے۔ اس اُمید پر کوئی گناہ کرنا یا کسی کی حق تلفی کرنا کہ مولیٰ بڑا کریم ہے، معاف کردےگا، بڑی جرأت اور سرکشی کی بات ہے۔


اُردو ورڈ Urdu Word
Twitter: @UrduW
SMS: Send ‘F UrduW’ to 40404
http://www.UrduWordUrdu.BlogSpot.com

Monday, June 3, 2019

اللہ کی محبت کافر کے دل میں بھی موجود ہے۔


الله تعالیٰ کی محبت ایسی چیز ہے جو کافروں کے دلوں میں بھی موجود ہے۔


الله تعالیٰ کی محبت ایسی چیز ہے جو کافروں کے دلوں میں بھی موجود ہے۔ الله تعالیٰ نے کفار پر عتاب کرتے ہوئے فرمایا:

أُولَٰئِكَ لَا خَلَاقَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ وَلَا يُكَلِّمُهُمُ اللَّهُ ﴿3:77
الله ایسے لوگوں سے کلام نہیں فرمائیں گے نہ ان کی طرف دیکھیں گے۔

اس دھمکی سے یہ امر صاف معلوم ہوتا ہے کہ ہر کسی کے دل میں محبت الہٰی خوب راسخ ہے۔ قیامت کو جب تمام رُکاوٹیں دُور ہوں گی تو اس کا ظہور کامل ہوگا۔ کیونکہ اگر یہ نہ ہوتا تو پھر کفار کو یہ دھمکی ایسی ہوگی کہ کوئی اپنے دشمن کو ناخوشی اور اعراض سے ڈرانے لگے؛ جو بالکل بے سود ہے۔ معلوم ہوا کہ قیامت کو ہر شخص الله کی محبت سے لبریز ہوگا کہ یہ بے التفاتی عذاب دوزخ سے بھی بدرجہا زیادہ ان کو جانکاہ معلوم ہوگی۔


اُردو ورڈ Urdu Word
Twitter: @UrduW
SMS: Send ‘F UrduW’ to 40404
UrduWordUrdu.BlogSpot.com

Sunday, June 2, 2019

زندگی کا بہترین ٹانک۔۔۔ ذکر اللہ


زندگی کا بہترین ٹانکذکر الله

اصل زندگی ذکر الله کا نام ہے۔ چونکہ ذکر الله کی کوئی کیفیت ہمارے دل میں نہیں اس لئے ہم غلطی سے زندگی کھانے پینے کو سمجھ لیتے ہیں۔ ورنہ اصل میں زندگی محبوب کا نام لینا ہے۔

دُنیا میں کسی سے محبت ہوجائے اور اس کے فراق میں رو کر بیمار ہوجائے، چارپائی پر لگ جائے اور کوئی کہے کہ تیرا محبوب آگیاوہ ایک دم اُٹھ کر بیٹھ جائے گا کہ کہاں ہے؟ معلوم ہوا کہ زندگی کی قوت درحقیقت محبوب کا وصال (ملاقات) ہے۔ روٹی، کپڑا یہ زندگی کی قوت نہیں۔

فرشتے زندہ ہیں۔ وہ کون سی گوشت روٹی کھاتے ہیں؟ ان کی زندگی بھی ذکر الله ہی سے ہے۔

دُنیا میں آدمی جھوٹے جھوٹے محبوبوں کی قوت سے زندہ ہوتا ہے۔ اگر کسی کے دل میں الله کی محبت سما جائے تو اس کی زندگی کا کیا ٹھکانہ ہوگا؟ انبیاء علیہم السلام الله کی محبت سے سرشار ہوتے ہیں۔ اس لیے ان کی زندگی کی قوت محبوب کا نام اور اس کا ذکر ہے۔ انبیاء علیہم السلام روٹی پانی سے نہیں بلکہ ذکر الله سے زندہ ہیں۔ انبیاء علیہم السلام اگر ایک دانہ بھی نہ کھائیں تو بھی ان کی زندگی میں فرق نہیں پڑسکتا۔ وہ تو اپنی عبدیت ظاہر کرنے کیلئے کھاتے پیتے ہیں کہ ان کا مقصد اُمت کیلئے سنت قائم کرنا ہوتا ہے۔

ہم ذکر الله سے غافل، ناواقف اور غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ زندگی روٹی سے قائم ہے، اس لیے ہم روٹی کی طرف لپکتے ہیں۔

ایک بزرگ جوکہ اولیاء کاملین میں سے تھے، وفات سے دو ماہ قبل فرمایا کرتے کہ: “بحمدالله! اب مجھے زندہ رہنے کیلئے کھانے پینے کی حاجت باقی نہیں رہی، محض اتباع سنت کیلئے کھاتا اور پیتا ہوں، میرا تو ذکر الله سے کام بن جاتا ہے۔

انبیاء علیہم السلام بقدر حاجت و ضرورت کھاتے پیتے تھے۔

صحابہ کرام رضوان الله تعالیٰ علیہم اجمٰعین کی یہ حالت تھی کہ دن بھر گھوڑے کی پشت پر سوار رہتے، کھانے کی کچھ خبر نہ ہوتی تھی، ہر وقت جہاد میں مشغول ہیں۔ بعضوں کے پاس چند ٹکڑے ہوتے انہی کو کھا لیتے، جبکہ بعضوں کے پاس وہ چند ٹکڑے بھی نہ ہوتے، کھجور کی چند گھٹلیاں ہوتیں۔ جب بھوک نے بہت ستایا بس وہ منہ میں ڈال کر نفس کو بہلا دیا کہ ہم بھی کچھ کھالیں، ورنہ وہ کھانے کی کیا چیز ہوتی۔ اہل کمال جتنے بھی ہیں وہ کم ہی کھاتے ہیں۔

انسان اشرف المخلوقات؛ اتنی بلند مخلوق اور اس کی زندگی کا مقصد یہ کہ وہ روٹی کھالے اور ختم ہوجائے! یہ کوئی اہم مقصد نہیں۔ اگر یہ اہم مقصد ہوتا تو جو اس مقصد کو زیادہ عمدگی سے انجام دیتا وہ اشرف المخلوقات ہونا چاہیے تھا۔ اس لحاظ سے بھینس، گائے اشرف المخلوقات بنتے؛ انسان نہیں۔

کیا یہ زندگی الله نے محض اس لیے دی ہے کہ دُنیا میں چند لقمے کھا لیے جائیں؟ زندگی کا مقصد بنانے کے اگر کوئی چیز لائق ہے تو وہ عبادت خداوندی ہے، ذکر حق اور طاعت خداوندی ہے۔

الله تعالیٰ ہمیں کثرت ذکرالله کے ذریعے روحانی قوت سے مالا مال فرمائیںآمین


اُردو ورڈ Urdu Word
Twitter: @UrduW
SMS: Send ‘F UrduW’ to 40404
UrduWordUrdu.BlogSpot.com

Thursday, May 30, 2019

مسواک


- مسواک -

مسکواک کی فضیلت و اہمیت میں بکثرت احادیث مروی ہیں۔

رسول الله نے فرمایا: "اگر اُمّت پر دشوار ہونے کا خوف نہ ہوتا تو میں ان پر ہر نماز کے لیے مسواک کو واجب قرار دے دیتا"۔ (بخاری، مسلم)

رسول الله نے فرمایا: مسواک کرنا مُنہ کی پاکیزگی کا ذریعہ ہے اور مؤجب رضائے الہٰی ہے۔ (بخاری)

رسول الله نے فرمایا: جبریلؑ جب بھی آئے، انہوں نے مجھے مسواک کرنے کے لیے ضرور کہا۔ (احمد)

حضور اکرم نے مزید فرمایا: خطرہ ہے کہ (جبریلؑ کی باربار تاکید اور وصیت پر) میں اپنے منہ کے اگلے حصے کو مسواک کرتے کرتے گِھس نہ ڈالوں۔ (احمد)

رسول الله جب قرأتِ قرآن یا سونے کا ارادہ فرماتے تو مسواک کرتے اور گھر میں داخل ہوتے وقت بھی مسواک کرتے۔

امی عائشہؓ فرماتی ہیں کہ رسولِ اکرم گھر میں داخل ہونے کے بعد سب سے پہلا کام جو کرتے وہ مسواک کرنا ہوتا تھا۔ (بخاری و مسلم)

امی عائشہؓ مزید فرماتی ہیں کہ آپﷺ وضو اور نماز کے وقت بھی مسواک کرتے تھے۔

انگلی سے مسواک کرنا بھی کافی ہے، اور اسی طرح ٹوتھ برش وغیرہ سے بھی۔ اصل مقصد مُنہ کی صفائی ہے، لیکن مسواک کے استعمال میں سُنت کا ثواب بھی ہے۔

امی عائشہؓ فرماتی ہیں: رسول اللهﷺ کا معمول تھا کہ دن یا رات میں جب بھی آپؐ سوتے، تو اُٹھنے کے بعد وضو کرنے سے پہلے مسواک ضرور فرماتے- (ابی داؤد)

مرض الوفات میں حضورِ اکرم صلی الله علیہ وسلم کا آخرم عمل مسواک ہے۔

رسول اللهﷺ نےارشاد فرمایا: وہ نماز جس کے لیے مسواک کی جائے، اس نماز کے مقابلے میں جو بِلا مسواک کے پڑھی جائے، ستّر گنی فضیلت رکھتی ہے۔(بیہقی)

- جن اوقات میں مسواک کرنا سُنّت یا مستحب ہے

  سونے کےبعد اٹھنے پر
وضو کرتے وقت
قرآن مجیدکی تلاوت کیلئے
حدیث شریف پڑھنے پڑھانے کیلئے
مُنہ میں بدبو ہوجانے کے وقت یا دانتوں کے رنگ میں تغیر پیدا ہونے پر۔
نماز میں کھڑے ہونے سے پہلے۔ (اگر وضو اور نماز میں زیادہ فصل ہوگیا ہو)۔
ذکر الہٰی کرنے سے پہلے
خانہ کعبہ یا حطیم میں داخل ہونے سے پہلے
اپنے گھر میں داخل ہونے کے بعد
بیوی کے ساتھ مقاربت سے پہلے
کسی بھی مجلس میں جانے سے پہلے
بھوک پیاس لگنے کے وقت
موت کے آثار پیدا ہوجانے سے پہلے
سحری کے وقت
کھانا کھانے سے قبل
سفر میں جانے سے قبل
سفر سے آنے کے بعد
سونے سے قبل

اگر ہم اپنے منہ کو سُنت کے مطابق صاف رکھیں تو بہت سی بیماریوں سے بچ سکتے ہیں۔


اُردو ورڈ Urdu Word
Twitter: @UrduW
SMS: Send ‘F UrduW’ to 40404
UrduWordUrdu.BlogSpot.com

کسی کو تکلیف نہ دیجئے


کسی کو تکلیف نہ دیجئے

کوئی فرد دُنیا میں نہ تنہا رہ سکتا ہے اور نہ ہی تنہا رہنے کا حکم دیا گیا ہے۔ خاندان، عزیز و اقارب، پڑوسی، دوست و احباب، یہ سب ہماری معاشرتی زندگی کا بنیادی حصہ ہیں۔ لیکن ہر ایک کی طبیعت، پسند، ترجیحات، معیار اور رائے دوسرے سے مختلف ہو سکتی ہے، جس سے اختلافات پیش آسکتے ہیں، اور یہ اختلافات بسا اوقات ناراضگی و انتشار کا سبب بھی بن جاتے ہیں، اس لئے شریعت نے نہ صرف مل جل کر رہنے کی تاکید کی ہے، بلکہ رہن سہن کے عمدہ آداب اور بہترین طریقے تعلیم فرمائے ہیں۔ ایک دوسرے کے حقوق کا تعین کرکے حسن معاشرت (یعنی ایک دوسرے کے ساتھ اچھے طریقے سے رہن سہن) اور حسن سلوک کی تاکید فرمائی ہے۔ اور حسن معاشرت اور حسن سلوک کو عباداتنماز، روزہ کی طرح دین کا اہم جُز قرار دیا ہے۔


’’کامل مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ ہوں‘‘۔ ﴿بخاری﴾

معلوم ہوا کہ حسن معاشرت کے بغیر ہمارا دین نامکمل ہے۔


’’اپنے شر کو لوگوں سے دور رکھو، بے شک یہ تمہاری طرف سے تمہارے اپنے ہی اوپر صدقہ ہے‘‘۔ ﴿مسلم﴾

معلوم ہوا کہ اپنے شر سے دوسروں کو بچانا، دوسروں کی سلامتی کے ساتھ ساتھ اپنی جان کی حفاظت کا ذریعہ بھی ہے۔ کہ وہ خود بھی مصائب و آفات سے بچتا ہے۔ جبکہ غلط رویے و بدسلوکی سے نہ صرف ہماری شخصیت مجروح ہوتی ہے بلکہ ہماری بداخلاقی سے بہت سے لوگ اذیت اٹھاتے ہیں۔
یوں معاشرہ میں اجتماعی طور پر بھی نفرت و فساد کی بنیاد پڑتی ہے۔


’’ہر حق والے کا حق ادا کرو‘‘۔ ﴿بخاری﴾

اگر ہم دوسروں کے حقوق ٹھیک ٹھیک ادا کرنے لگیں، اچھا سلوک اور عمدہ معاملہ کرنے لگیں تو دنیا جنت کا نمونہ بن جائے۔ بعض دفعہ ہم لوگ کسی عبادتنماز، روزہ نفلی حج و عمرہ، صدقات، قرآن کی تلاوت، اَوراد و وظائف و دعاؤں وغیرہ کا تو خوب اہتمام کرتے ہیں، اور ہمارے دلوں میں ان عبادات کی واقعی قدر و اہمیت بھی ہوتی ہے، لیکن والدین، بہن بھائی، شوہر، بیوی بچے، ساس سسر، بہو، رشتہ دار، پڑوسی، ماتحت، دوست و احباب، دیگر تعلق داروں اور حق داروں کے حقوق کی ہمارے دلوں میں ایسی اہمیت نہیں ہوتی۔ اور وہ ہماری اذیتوں کا شکار رہتے ہیں۔ حالانکہ جیسے ہم عبادات کا اہتمام کرتے ہیں اسی طرح اس بات کا اہتمام و فکر کہ: "کسی کو کوئی تکلیف نہ پہنچے اور ہر ایک کا حق بروقت اور پورا پورا ادا ہو" یہ بھی نماز، روزہ کی طرح ضروری ہے۔ غرض اچھی معاشرت کا خلاصہ یہ ہے کہ ہمارے کسی قول و فعل یا حال سے کسی کو ذرا سی بھی (ناحق) تکلیف نہ پہنچے۔


اُردو ورڈ Urdu Word
Twitter: @UrduW
SMS: Send ‘F UrduW’ to 40404
UrduWordUrdu.BlogSpot.com

صحابی رسولﷺ کی حسنِ معاشرت


رسول الله صلی علیہ والہ وسلم کے ایک صحابی حضرت طلحہ رضی الله تعالیٰ عنہ اپنے حسن معاشرت کے باعث بیوی بچوں میں نہایت محبوب تھے۔ آپؓ اپنے کنبہ میں بڑی لطف و محبت کے ساتھ زندگی بسر کرتے تھے۔ عتبہ بن ربیعہ آپؓ کے اوصاف حمیدہ کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

’’وہ گھر آتے ہیں تو ہنستے ہوئے، باہر جاتے ہیں تو مسکراتے ہوئے، کچھ مانگو تو بخل نہیں کرتے اور خاموش رہو تو مانگنے کا انتظار نہیں کرتے، اگر کوئی کام کردو تو شکرگزار ہوتے ہیں، اور خطاء ہو جائے تو معاف کردیتے ہیں‘‘ ﴿سیرالصحابہ﴾

یہاں ہمارے لئے چھ صفات کا سبق موجود جو ہمیں اپنے اندر پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔

گھر میں ہنستے ہوئے داخل ہونا۔
گھر سے مُسکراتے ہوئے رخصت ہونا۔
گھر والوں کی ضرورت کو (اپنی استطاعت کے مُطابق) پورا کرنا اور ان ضروریات کو پورا کرنے میں بخل نہ کرنا۔
گھر والوں کی ضرورت کا اُن کے سوال کئے بغیر بھی خیال رکھنا، اور اُن کے سوال کرنے سے قبل ہی اُن کی ضرورت کو پورا کردینا۔
گھر والوں کے کام پر شکریہ ادا کرنا۔
گھر والوں کی خطاؤں سے درگزر کرنا، اور اُن کی غلطیوں کو خوش مزاجی کے ساتھ معاف کردینا، اور اُس پر گرفت اور مواخذہ نہ کرنا۔

الله تعالیٰ ہمیں بھی اصحاب رسول کا سچا غلام بننے اور اُن کے نقشے قدم پر چلتے ہوئے اپنے کنبہ کے ساتھ لطف و محبت سے رہنے کی توفیق عطا فرمائیں. آمین

اُردو ورڈ Urdu Word
Twitter: @UrduW
SMS: Send ‘F UrduW’ to 40404
UrduWordUrdu.BlogSpot.com