Sunday, October 27, 2019

دنیا ایک درسگاہ


دُنیا کی مثال ایک ایسی درسگاہ کی سی ہے جو ایک ہی کمرہ پر مشتمل ہو، جس میں مختلف جماعتوں کے طلباء کو ایک ساتھ جمع کردیا گیا ہو: پہلی جماعت کے طلباء کالج اور یونیورسٹی کے طلباء کے ساتھ ہیں، ذہنی طور پر کمزور طلباء خداداد صلاحتیوں سے مالامال طلباء کے ساتھ ہیں۔

یہاں کا نصاب ہر زبان میں پڑھایا جاتا ہے اور ہر قسم کے مضامین کا احاطہ کیا جاتا ہے۔ ہر قوم اور ہر نسل کے طلباء یہاں شرکت کرتے ہیں ― تمام انسان شرکت کرتے ہیں۔ سب کی منزل ایک ہے، روحانی تدریج۔

اس درسگاہ کے اسباق تھوڑے مشکل ہیں، اسکی وجہ یہ ہے کہ یہاں ہمیں جسم دیا گیا ہے، لہٰذا ہمارا سامنا بیماریوں سے ہوتا ہے، موت سے ہوتا ہے، نقصان، درد، علیحدگی، اور بےشمار مختلف قسم کی تکالیف سے گزرنا پڑتا ہے۔

تاہم اس درسگاہ، یعنی دنیا میں ہمیں بےشمار فضائل بھی میسر ہیں، جیسے ناقابلِ یقین خوبصورتی، محبت، غیرمشروط محبت، روحانی ساتھی، تمام حواس کیلئے راحتیں، مہربان اور ہمدرد لوگ، اور روحانی ترقی و بلندی کے تیز تر مواقع۔

آخر کار، زندگی کے کئی نشیب و فراز سے گزرنے کے بعد، ہم ان تمام اسباق سے کچھ نہ کچھ حاصل کر ہی لیتے ہیں۔ اور پھر بالآخر ایک وقت آتا ہے جب ہماری تعلیم کا یہ سلسلہ مکمل ہوجاتا ہے، اور پھر ہمیں اس کے لئے دوبارہ جنم لینا نہیں پڑتا۔

اُردو ورڈ ― Urdu Word
Twitter: @UrduW
SMS: Send ‘F UrduW’ to 40404
http://www.UrduWordUrdu.BlogSpot.com

Friday, October 25, 2019

تصور کریں کہ ایک خوبصورت پہاڑ ہے، جس کی چوٹی برف سے ڈھکی ہوئی ہے…


تصور کریں کہ ایک خوبصورت پہاڑ ہے، جس کی چوٹی برف سے ڈھکی ہوئی ہے۔ جب آپ اسے دیکھیں تو آپ محسوس کریں کہ اس کا اندرونی حصہ مستقل طور پر پرسکون اور درجہ حرارت اطمینان بخش ہے؛ کہ باہر جیسا بھی موسم ہو، اس کیوجہ سے اندر کے ماحول میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی۔

اب یہ تصور کریں کہ موسم بدلنا شروع ہوتا ہے۔ موسمِ گرما اور برسات کی آمد ہوتی ہے تو گرج چمک کے ساتھ طوفانی بارشیں ہوتی ہیں، اور جنگلوں میں آگ بھڑک اُٹھتی ہے؛ تاہم پہاڑ کے باطنی حصے میں ٹھہراؤ اور سکون رہتا ہے۔

گرمیاں خزاں میں تبدیل ہو جاتی ہیں، اور تیز ہواؤں کے جھکڑ چلنا شروع ہو جاتے ہیں، درختوں کے پتے گرنے لگتے ہیں؛ پھر سردیاں آجاتی ہیں اور ساتھ میں برف اور جما دینے والی ٹھنڈ؛ اور پھر یہ بھی بہار میں بدل جاتی ہیں، برف پگھلنے لگتی ہے اور برفانی تودے گرنے لگتے ہیں۔

ان کے باوجود پہاڑ کا باطنی حصہ، پہاڑ کی گہری غار میں موجود یہ خوبصورت حصہ، موسموں کی ان تبدیلیوں کیوجہ سے مُتاثر ہونے سے محفوظ رہتا ہے۔

ہم بھی اس پہاڑ کی طرح ہیں۔ ہمیں ضرورت نہیں کہ ہم باہر کے واقعات کو اپنی خوشی، ہم آہنگی اور اتفاق لوٹنے دیں؛ چاہے وہ واقعات کتنے ہی مضبوط طوفانی غصہ کی صورت میں ہوں یا ہوائیں کتنی ہی تیز کیوں نہ ہوں۔

ہم سب کے باطن میں بھی ایک حصہ ہے جو پُرسکون اور مطمئین ہوتا ہے۔ یہ اس وقت بھی موجود ہوتا ہے جب ہمیں اس کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہم اپنے باطن کے اس حصہ میں جاکر خود کو شفایاب کر سکتے ہیں۔

پہاڑ کا باطنی حصہ کامل ہوتا ہے ― اور ہمارا بھی۔

اب دوبارہ تصور کریں کہ سیاح اس پہاڑ پر آتے ہیں۔ کوئی ریل گاڑی میں آتا ہے، کوئی ہوائی جہاز میں، کوئی بذریعہ گاڑی، کوئی کشتی، اور کوئی کسی اور ذریعہ سے۔ تو ان سب کی اپنی اپنی رائے ہوتی ہے۔ کوئی کہتا ہے کہ: یہ پہاڑ اتنا خوبصورت نہیں جتنا میں نے کہیں اور دیکھا تھا۔ یہ بہت چھوٹا ہے، یا بہت زیادہ بڑا ہے، یا بہت سمٹا ہوا ہے، یا بہت زیادہ پھیلا ہوا ہے۔ لیکن پہاڑ ان کی کوئی پرواہ نہیں کرتا، کیونکہ وہ جانتا ہے کہ یہی تو اسکا اصل اور مثالی جوہر ہے۔

ہم، ایک مرتبہ پھر، پہاڑ کی مانند ہیں۔ لوگ ہمارے بارے میں چاہے کچھ بھی کہیں، چاہے جو تنقید کریں یا جیسا چاہیں ہمارے بارے میں سوچیں، ہمیں خدا نے کامل بنایا ہے اور اپنی قوتوں سے نوازہ ہے۔ ہم پر دوسروں کی رائے اثرانداز نہیں ہونی چاہیئے، حتیٰ کہ ان کی بھی نہیں جو ہمارے قریبی ہیں، جیسے ہمارے خاندان کے افراد، یا وہ جنہیں پیشہ کے اعتبار سے ہم جوابدہ ہیں، یا وہ جن سے ہمارا محبت کا رشتہ ہے۔

اس تصور کے تحت ہم پہاڑ کی طرح مضبوط ہیں اور زمین پر جمے ہوئے ہیں۔ ہم دل کی گہرائی میں یہ جانتے ہیں کہ ہمارا اصل وجود ایک مثالی اور کامل روح ہے۔ دوسروں کے الفاظ ہمارا باطنی سکون اور خوشی نہیں چھین سکتے جب تک کہ ہم خود انہیں اختیار نہ دیں۔

ہمیں اپنی عظمت اور شرافت کو یاد کرتے رہنا چاہیئے؛ اس خوبصورت پہاڑ کی طرح، ہم بھی شاندار ہیں۔ ہم ہمیشہ ہی سے ہیں۔


اُردو ورڈ  Urdu Word

Twitter: @UrduW
SMS: Send ‘F UrduW’ to 40404
http://www.UrduWordUrdu.BlogSpot.com